ہم تو پرواز عین شاہین رکھتے ہیں
ہستی زیشاں کی جستجو کے ساتھ
ہم تو پرواز عین شاہین رکھتے ہیں
قرب و بعد کے تسلسل میں نہ جھانک
ہم تو نور بصر کے ساتھ بصیرت رکھتے
ہیں
زندگی کی روانی میں چھائے گھٹا
ٹوپ اندھیرا تو کیا
ہم تو فلک ہیں مہتاب کی ادا رکھتے
ہیں
ظاہر و باطن کے شکنجے میں ہیں
جکڑ ے تو سنو
ہم تو مینہ ہیں برستے ہیں بحر
میں پناہ رکھتے ہیں
ہمارے تخلص کو نہ بدلو لقب فتن
سے
ارے ہم تو فنا ہے مگر بقاء کی
طلب رکھتے ہیں
یہ جو رشتوں کی ڈور میں الجھے
سے نظر آتے ہیں
ہم حسن نظر ہیں ورفتگی قلب بھی
بے پناہ رکھتے ہیں
نکلے ہیں خود کو بچانے ذرا دیکھو
گداگر
ہم مجرم ہیں خود کو نفس میں قید
رکھتے ہیں
دل و دلبر کے شوقین نہ تھے ہم
کبھی
ہم تو بقا کی طلب اور عشق کی پہچان
رکھتے ہیں
گر گئے ہیں آتش عشق کی لہر میں
اسقدر کہ
اب ہم تو سراپا عشق ہیں عاشق کی
ادا رکھتے ہیں
بنت اقبال
_______________________________________________________
نکلے تھے وفا کی بھیک کی
خاطر کسی سے
وفا تو نہ ملی مگر طرز حیات مل گیا
پتہ نہیں کیوں رہ گئ تھی اک کسک
سی باقی
ٹھکانہ تو ملا مگر کوئی سہارا
نہ ملا
آنکھوں میں کچھ سپنےتھے ان سپنوں
میں کچھ اپنے
اپنے تو ملے بہت مگر سپنوں جیسا
نہ ملا
تبسم کی عادت تھی مجھے شب روانی
میں
اشکوں کی برسات تھی ملی مگر تبسم
نہ ملا
ہم نے خود کو چاہا تھا اسقدر بے
سود ہوکر
جان تو ملی جان جاناں نہ ملا
کیا چاہا تھا ہم نے عادت گستاخ
میں جینا
گستاخیاں تو ہوئی مگر آشیانا نہ
ملا
خواب تھے ہمارے انوکھی زندگی کے
زندگی تو ملی مگر رونق آوارہ نہ
ملا
چاہا تھا کسی کو خودی سے زیادہ
عدی
چاہت تو ملی مگر چاہنے والا نہ
ملا
_______________________________________________________
کسے جئے ہیں تم بن تمہیں خبر نہ
ہوئی
روز جئے اور مرے ہیں تم بن تمہیں خبر نہ ہوئی
شوق و ذوق تھا تم بن تمہیں خبر
نہ ہوئی
ارادہ حسن تھا تم بن تمہیں خبر
نہ ہوئی
محو زبان تھے اور مسرور قلب تھا
ہمارا
یہ مستیاں تھی تم بن تمہیں خبر
نہ ہوئی
لطف نظر تھے ہماری اندازے زندگی
تھی
یہ مئے خانے تھے تم بن تمہیں خبر
نہ ہوئی
چاند بھی محو گفتار رہتا تھا کبھی
کبھی
یہ چاندنی تھی تم بن تمہیں خبر
نہ ہوئی
یوں چلے گئے زندگی سے مغرور ہوکر
یہ زندگی تھی تم بن تمہیں خبر
نہ ہوئی
_______________________________________________________
دیکھا ہے میں نے اس کو اک رخ سے اترتا
نہ جانے کیا سبب تھا کیا خیال
تھا ہمارا
کیوں دیکھا اس کو میں نے یا بن
دیکھے اس کو دیکھا یہ کیا ماجرا تھا
نہ جانے کیا سبب تھا کیا خیال
تھا ہمارا
کسی کی طلب تھی نہ کوئی طلب کے
سوا تھا
یہ ہموار راستہ تھا نہ درمیا ہمارا
نہ جانے کیا سبب تھا کیا خیال
تھا ہمارا
اک آواز جو اس دل میں بس گئ تھی
کہاں لوٹ کر چلی وہ کیوں لوٹ کر چلی وہ غور سے تو دیکھو وہ سب ہی ساتھ لے گئ
چھوڑ گئ ہے اک آشنا دھواں دھواں
ہمارا
نہ جانے کیا سبب تھا کیا خیال
تھا ہمارا
جو خود کو دیکھا کچھ تنہا سے لگ
رہے تھے پھر پلٹ کر دیکھا نہ جواز ہستی موجود تھا ہمارا
ہم کیا تھے کیا ہیں کیا ہونگے
کیا خبر
بس اتنا جانتے اک آرزو ذات تھی
ہماری پھر بھی یوں کہیں
نہ جانے کیا سبب تھا کیا خیال
تھا ہمارا
_______________________________________________________
ہم سے تعلق رکھو گے توطبعیت ئھیک رہے گی😍
ReplyDeleteہم وہ حکیم ہیں جو لفظوں سے علاج کرتے ہیں😍
کمال کا ظرف رکھتے ہیں وہ لوگ بھی جو لفظوں سے علاج کرتے ہیں
Deleteہم نے تو سنا تھا لفظوں سے بٹر ھ کر زہریلی دوا کوئی نہیں
Wah g Wah
DeletePlease comments on my poetry
ReplyDeleteKamaal
ReplyDelete