*نہ مرغا اماں کے ہاتھ پر ٹھونگ مارتا نہ ذلیل ہوتا..* *میں نے فخریہ انداز میں بابا جی سے کہا کہ میرے پاس اچھا بینک بیلنس ہے، دو گاڑیاں ہیں، بچے اچهے سکول میں پڑھتے ہیں۔* *عزت، مرتبہ، ذہنی سکون، الغرض دنیا کی ہر آسائش مجھے میسر ہے۔* *بابا نے نظر بھر کر مجھے دیکھا اور بولے:* *"معلوم ہے یہ کرم اس لیے ہوا کہ تو نے اللہ کے بندوں کو ٹھونگیں مارنا چھوڑ دیں۔"* *میں نے وضاحت چاہی۔ بابا کہنے لگے کہ میری اماں نے ایک اصیل ککڑ پال رکھا تھا۔ اماں کو اس مرغے سے خصوصی محبت تھی۔* *اماں اپنی بُک (مٹھی) بھر کر مرغے کی چونچ کے عین نیچے رکھ دیا کرتی تھیں، ککڑ چونچ جھکاتا اور جھٹ پٹ دو منٹ میں پیٹ بھر کر مستیوں میں لگ جاتا۔* *میں روز یہ ماجرا دیکھا کرتا اور سوچتا کہ یہ ککڑ کتنا خوش نصیب ہے۔ کتنے آرام سے، بغیر محنت کئے، اسے اماں دانے ڈال دیتی ہیں۔* *ایک روز میں صحن میں بیٹھا پڑھ رہا تھا کہ حسب معمول اماں آئیں اور دانوں کی بُک بھر کر مرغے کی طرف بڑھیں۔ اماں نے جیسے ہی مٹھی آگے کی، مرغے نے اماں کے ہاتھ پر ٹھونگ (چونچ) مار دی۔ اماں نے تکلیف سے ہاتھ کو جھٹکا تو دانے پور