Posts

مجھے عشق ہو تیری ذات سے میرے روبرو تو رہا کرے میں بکھروں تو سمیٹ لے کچھ یہ تسلسل رہا کرے

مجھے عشق ہو تیری ذات سے میرے روبرو تو رہا کرے میں بکھروں تو سمیٹ لے کچھ یہ تسلسل رہا کرے تیری پاکیزگی یوں اترے میری روح میں پھر قلب و باطن بھی ریزہ ریزہ رہا کرے منتشر ہوں جب بھی تیری جستجو میں تو تھام کر میری دھڑکنیں مجھے نظر میں رکھا کرے کاش میں ناچوں تیرے عشق میں تو جوگی جوگی کہاں کرے

اک کہانی میری زبانی - 1 نہ مرغا اماں کے ہاتھ پر ٹھونگ مارتا نہ ذلیل ہوتا

*نہ مرغا اماں کے ہاتھ پر ٹھونگ مارتا نہ ذلیل ہوتا..* *میں نے فخریہ انداز میں بابا جی سے کہا کہ میرے پاس اچھا بینک بیلنس ہے، دو گاڑیاں ہیں، بچے اچهے سکول میں پڑھتے ہیں۔*  *عزت، مرتبہ، ذہنی سکون، الغرض دنیا کی ہر آسائش مجھے میسر ہے۔* *بابا نے نظر بھر کر مجھے دیکھا اور بولے:*  *"معلوم ہے یہ کرم اس لیے ہوا کہ تو نے اللہ کے بندوں کو ٹھونگیں مارنا چھوڑ دیں۔"* *میں نے وضاحت چاہی۔ بابا کہنے لگے کہ میری اماں نے ایک اصیل ککڑ پال رکھا تھا۔ اماں کو اس مرغے سے خصوصی محبت تھی۔* *اماں اپنی بُک (مٹھی) بھر کر مرغے کی چونچ کے عین نیچے رکھ دیا کرتی تھیں، ککڑ چونچ جھکاتا اور جھٹ پٹ دو منٹ میں پیٹ بھر کر مستیوں میں لگ جاتا۔*  *میں روز یہ ماجرا دیکھا کرتا اور سوچتا کہ یہ ککڑ کتنا خوش نصیب ہے۔ کتنے آرام سے، بغیر محنت کئے، اسے اماں دانے ڈال دیتی ہیں۔* *ایک روز میں صحن میں بیٹھا پڑھ رہا تھا کہ حسب معمول اماں آئیں اور دانوں کی بُک بھر کر مرغے کی طرف بڑھیں۔ اماں نے جیسے ہی مٹھی آگے کی، مرغے نے اماں کے ہاتھ پر ٹھونگ (چونچ) مار دی۔ اماں نے تکلیف سے ہاتھ کو جھٹکا تو دانے پور

تیرے عشق نے لیلی کبھی مجنوں جو بنا رکھا ہے

تیرے عشق نے لیلی کبھی مجنوں جو بنا رکھا ہے خدا کی قسم بہت عجب تماشا لگا رکھا ہے تپیش عشق میں بھی ہے سکون اسقدر اب آگ کے گلزار ہونے میں کیا رکھا ہے زندگی کانٹوں پر بسر ہو یا نرم بستر پر آخر قضا ضروری ہے پھر اس کھیل میں کیا رکھا ہے عادت سی ہوگی ہے تیرے غموں میں چور ہونے کی اب ان لعب و لہو اور راحت میں کیا رکھا ہے کھو دیا تیری ذات میں خود کو اسقدر سچ بتائیں تو اب ہماری ذات میں کیا رکھا ہے تیرے چہرے کے نقش چھپے ہیں ہماری چشم میں ایسے ذرا دیکھو تو ان گلاب کی خوشبو میں اب کیا رکھا ہے               بنت اقبال کچھ خاص نہ سہی یہ ذات ہماری  کاش ہمارہ کوئی بھرم ہی رکھ لیا ہوتا اک دل ہی تو تھا وہ بھی فدا آپ پر ھم سے اس خلوص کو دور تو نہ کیا ہوتا دل سے جوڑا اک خاص رشتہ پل میں پرایا کر دیا ہمارے زخموں سے چور دل کو یوں نہ ذلیل کیا ہوتا روٹھ جائیں گے اس فانی دنیا سے اک دن پڑا رہ جاے گا زمانہ ہمارا طلبگار ہو کر روح کو جھنجوڑ کر رکھ دیا زمانے کی روش نے کبھی تو ہمارے مجرم ہونے کا اطراف کیا ہوتا گلا تو خود سے ہے جن کو روح کا سا تھی مانا اس نے دل لگی کی ک

لطف نگاہ شوق تھا ہمارا وہ

لطف نگاہ شوق تھا ہمارا وہ  وہ دیار ساقی کی اک بستی میں بسا تھا پینے پلانے کا کام نہ تھا اسکا  وہ تو اپنی ذات شوق میں ہوا بد مشت پڑا تھا اک ذات تھی اسکی کہ بھول بیٹھا تھا خود کو  شاید اک تمنا تھی وہ جو گلشن یار میں پڑا تھا ذوق شوق تھا نہ نگاہ لطف تھی اس میں وہ تو بس یونہی ہو کے بے قرار پڑا تھا کیا سبب تھا اسکی اداسی کا  کس نے جا نا  وہ قیامت تھا عالم قیامت میں پڑا تھا کون سمجھتا اسکے حالات ساقی وہ خود ہی خود کی ذات میں بے مثال پڑا تھا اک نظر کے عالم نے کیسا حیا سے پردہ اٹھایا  وہ خودی میں خودی سے ہونے ہم کلام پڑا تھا اس نے کیا مانگا کیا جانا کیا چاہا کیا خبر وہ تو ہونے اپنے آشنا سے ہم گفتار پڑا تھا یار عشق کا تھا اسکو خوف اسقدر  وہ اپنے ہی خوف میں ڈوبا ہوا تاریک شام پڑا تھا  نگاہ عشق نے نگاہ یار سے پوچھا جو اپنا حال  وہ نگاہ ذوق میں ڈوبا ہوا اشکوں میں بے تاب پڑا تھا سنا ہے کوئی تلاش گمشدہ ہے کون ہے وہ جو گمشدہ ہے کیا وہ جو راہ سخن کے متلاشی ہیں یا وہ جو عشق و حسن کے درمیان ہیں کیا وہ وہ تو نہیں جو عشق کے سمندر میں موجزن ہے یا وہ جو جستجو ب

تماشا گیر تھے سبھی آئے اور چلے گئے

تماشا گیر تھے سبھی آئے اور چلے گئے سمجھا نہ کسی نے وجہ تماشا کیا تھا مخمل کی چادر اوڑھے پڑے ہیں تخت شاہی پر خاک کے بستر پر سونا ہے ضرروآلم کیا تھا کبھی آفتاب ومہتاب کبھی کہکشاں کی بہاریں کبھی لگا کے گرہن سب کو سمجھایا کیا تھا دہلیز پر بیٹھے ہیں خودی کی بن کر بھکاری نیازونزر کچھ بھی نہیں یہ ستم کیا تھا اک ہنگامہ سا برپا ہے ارض و سما پر یکسر کڑک کے ساتھ مینہ یہ ماجرا کیا تھا کانٹوں میں جینا سکھتے ہیں ہر گلاب و ثمر دیتے ہیں چبھن لوٹاتے ہیں خوشبو یہ نظارہ کیا تھا غمخار ہمارا کون ہے جہان فانی میں ہر اک خود کا متلاشی ہے کنارہ کیا تھا تراشا ہے خود کو جواہر صنم کی طرح نکلے ہیں خودی میں خودی کے تصور کی طرح فاصلوں کی جستجو ہے نہ قلب واقر ہے تماشا دل ہے ضمیر تذلذل کی طرح فنا میں فنا ہیں اور طلب بھی فنا ہے بقا کو چھوڑ آئے ہیں الزام کفر کی طرح زمانے کی دھول کو جذب نظر سمجھنا صدق کو بکھیر دیا ہے زین عزم کی طرح آفتاب مشتری کو جانچ لیا ہم نے پہچان خودی کو بھول گے اجنبی کی طرح ٹوٹا ہے دل اور کھائے کتنے زخم پھر بھی نیر کو چھپا رکھا ہے چھپی مس

ہم تو پرواز عین شاہین رکھتے ہیں

ہستی زیشاں کی جستجو کے ساتھ ہم تو پرواز عین شاہین رکھتے ہیں قرب و بعد کے تسلسل میں نہ جھانک ہم تو نور بصر کے ساتھ بصیرت رکھتے ہیں زندگی کی روانی میں چھائے گھٹا ٹوپ اندھیرا تو کیا ہم تو فلک ہیں مہتاب کی ادا رکھتے ہیں ظاہر و باطن کے شکنجے میں ہیں جکڑ ے تو سنو ہم تو مینہ ہیں برستے ہیں بحر میں پناہ رکھتے ہیں ہمارے تخلص کو نہ بدلو لقب فتن سے ارے ہم تو فنا ہے مگر بقاء کی طلب رکھتے ہیں یہ جو رشتوں کی ڈور میں الجھے سے نظر آتے ہیں ہم حسن نظر ہیں ورفتگی قلب بھی بے پناہ رکھتے ہیں نکلے ہیں خود کو بچانے ذرا دیکھو گداگر ہم مجرم ہیں خود کو نفس میں قید رکھتے ہیں دل و دلبر کے شوقین نہ تھے ہم کبھی ہم تو بقا کی طلب اور عشق کی پہچان رکھتے ہیں گر گئے ہیں آتش عشق کی لہر میں اسقدر کہ اب ہم تو سراپا عشق ہیں عاشق کی ادا رکھتے ہیں                  بنت اقبال   _______________________________________________________ نکلے تھے وفا کی بھیک کی خاطر کسی سے وفا تو نہ ملی مگر طرز حیات مل گیا پتہ نہیں کیوں رہ گئ تھی اک کسک سی باقی ٹھکانہ تو ملا مگر کوئی س