تماشا گیر تھے سبھی آئے اور چلے گئے



تماشا گیر تھے سبھی آئے اور چلے گئے
سمجھا نہ کسی نے وجہ تماشا کیا تھا
مخمل کی چادر اوڑھے پڑے ہیں تخت شاہی پر
خاک کے بستر پر سونا ہے ضرروآلم کیا تھا
کبھی آفتاب ومہتاب کبھی کہکشاں کی بہاریں
کبھی لگا کے گرہن سب کو سمجھایا کیا تھا
دہلیز پر بیٹھے ہیں خودی کی بن کر بھکاری
نیازونزر کچھ بھی نہیں یہ ستم کیا تھا
اک ہنگامہ سا برپا ہے ارض و سما پر یکسر
کڑک کے ساتھ مینہ یہ ماجرا کیا تھا
کانٹوں میں جینا سکھتے ہیں ہر گلاب و ثمر
دیتے ہیں چبھن لوٹاتے ہیں خوشبو یہ نظارہ کیا تھا
غمخار ہمارا کون ہے جہان فانی میں
ہر اک خود کا متلاشی ہے کنارہ کیا تھا


تراشا ہے خود کو جواہر صنم کی طرح
نکلے ہیں خودی میں خودی کے تصور کی طرح
فاصلوں کی جستجو ہے نہ قلب واقر ہے
تماشا دل ہے ضمیر تذلذل کی طرح
فنا میں فنا ہیں اور طلب بھی فنا ہے
بقا کو چھوڑ آئے ہیں الزام کفر کی طرح
زمانے کی دھول کو جذب نظر سمجھنا
صدق کو بکھیر دیا ہے زین عزم کی طرح
آفتاب مشتری کو جانچ لیا ہم نے
پہچان خودی کو بھول گے اجنبی کی طرح
ٹوٹا ہے دل اور کھائے کتنے زخم
پھر بھی نیر کو چھپا رکھا ہے چھپی مسکراہٹ کی طرح
اندھیرے مکاں ہیں مکیں کی خبر کہاں
تمنا ہے اجالے کی کسی حسرت کی طرح



شوروغل سے تنگ آکر اٹھے ہیں خاموشی کی داستان بن کر
پھر بھی ہنگامہ آرائی ہے باطن میں جا بجا
معلوم ہے زمانے کی آسائشوں سے ہمکنار جئے ہیں
پھر بھی چھپی ہے تمنائے امارت کہیں کہیں
زندگی میں بندگی کی اہمیت رکھتے ہیں مگر
نفاق و محسود کو جا بجا رکھ کر
تسلسل آب میں ہوئے غرق تو کیا ہوا
دل تو ہمارا ہی ہے جتے ہیں بے پرواہ ہو کر
زمانے کی بھیک ہم کو سوال کرنے پہ ملی
بادشاہ تو آج بھی ہیں پر بھکاری کی ادا بن کر
متلاشی سخن کے پردہ داروں سے کہہ دو
نہ الجھے ہم سے بتلائے گے تم کو نظارہ کیا ہے تمہارے روبرو ہو کر
جو کہتے ہو زمانہ برا ہے اچھا بننے نہیں دیتا
تو سنو!
تمہی سے زمانہ ہے تم ہی زمانہ ہو بن گے شرفاء خود کو بے گناہ کہہ کر



بے معنی ہے ذات خاک ذات عشق کے بنا
ارے عشق اس خاک سے مل کر اسکو با معنی کر دے
کچھ اسطرح تغیر ہو اس ذات فنا میں
کہ لپٹ کر اس ذات بقا کو ریزہ ریزہ کر دے
سنا ہے عشق کو حاصل ہے بقا لا مکاں تلک بھی
اے لاحاصل حاصل ہو کر مجھے پاکیزہ کردے
دیار ے یار میں پٹرے ہیں بدمست ہو کے
اے ساقی کوئی جام ایسا پلا مجھ کو متحیر کر دے
مبہم ہیں کوئی ذات تجھ میں اے بے خبر
اس ذات سے باخبر ہو کر اسے مکمل کر دے

Comments

  1. Nice شوروغل سے تنگ آکر اٹھے ہیں خاموشی کی داستان بن کر

    ReplyDelete

Post a Comment