لطف نگاہ شوق تھا ہمارا وہ

لطف نگاہ شوق تھا ہمارا وہ 
وہ دیار ساقی کی اک بستی میں بسا تھا
پینے پلانے کا کام نہ تھا اسکا 
وہ تو اپنی ذات شوق میں ہوا بد مشت پڑا تھا
اک ذات تھی اسکی کہ بھول بیٹھا تھا خود کو 
شاید اک تمنا تھی وہ جو گلشن یار میں پڑا تھا
ذوق شوق تھا نہ نگاہ لطف تھی اس میں
وہ تو بس یونہی ہو کے بے قرار پڑا تھا
کیا سبب تھا اسکی اداسی کا  کس نے جا نا 
وہ قیامت تھا عالم قیامت میں پڑا تھا
کون سمجھتا اسکے حالات ساقی
وہ خود ہی خود کی ذات میں بے مثال پڑا تھا
اک نظر کے عالم نے کیسا حیا سے پردہ اٹھایا 
وہ خودی میں خودی سے ہونے ہم کلام پڑا تھا
اس نے کیا مانگا کیا جانا کیا چاہا کیا خبر
وہ تو ہونے اپنے آشنا سے ہم گفتار پڑا تھا
یار عشق کا تھا اسکو خوف اسقدر 
وہ اپنے ہی خوف میں ڈوبا ہوا تاریک شام پڑا تھا 
نگاہ عشق نے نگاہ یار سے پوچھا جو اپنا حال 
وہ نگاہ ذوق میں ڈوبا ہوا اشکوں میں بے تاب پڑا تھا



سنا ہے کوئی تلاش گمشدہ ہے
کون ہے وہ جو گمشدہ ہے
کیا وہ جو راہ سخن کے متلاشی ہیں
یا وہ جو عشق و حسن کے درمیان ہیں
کیا وہ وہ تو نہیں جو عشق کے سمندر میں موجزن ہے
یا وہ جو جستجو با وفا میں سرگرم ہے
سنا ہے کوئی تلاش گمشدہ ہے
کون ہے وہ جو گم شدہ ہے
کیا وہ جو جلوت میں تصور جلوہ گر ہیں
یا وہ جو خلوت میں تصور حسن ہیں
کیا وہ وہ تو نہیں جو چوکھٹ پر آئے ہیں
یا وہ جو بھکاری بن کر شہنشاہ آئے ہیں
سنا ہے کوئی تلاش گمشدہ ہے
کون ہے وہ جو گم شدہ ہے
کیا وہ جو اندھیروں میں شمع کے متلاشی ہیں
یا وہ جو روشنیوں کی الجھنوں سے تنگ آگئے ہیں
کیا وہ تو نہیں جو زخموں میں چور تار تار ہیں
یا وہ جو سکوں میں بھی تکالیف کا شکار ہیں
سنا ہے کوئی تلاش گمشدہ ہے
کون ہے وہ جو گم شدہ ہے


لکھنے کے قابل تو نہیں پھر بھی لکھنے ہم یار بیٹھے ہیں
احساس ہے نہ ستم یار کا پھر بھی انتظار انجام بیٹھے ہیں
روح تک کانپ گئی جب سنا تخلص صنم
بنا کر مٹی کے بت اور جرآت سجود کر بیٹھے ہیں
کمال معصومیت تو دیکھو ان اہل دنیا کی
کرکے گناہ بے وفائی کا بن کر با وفا بیٹھے ہیں
حیران ہے نظر دیکھ کر دستور زمانہ ان ابن آدم کا
سرخرو ہوئے انجام ذات سے پھر بھی ہو کر بدنام بیٹھے ہیں
 جلتا رہا دل ہوئے تار تار کتروں کی مانند
پھر بھی چھپائے غم بنے خاموشی کی داستان بیٹھے ہیں 
بنت اقبال


ہم تو سمجھے چاند اتر آیا ہے زمیں پر
جب بے نقاب ہوئے صنم تو جانا یہ چہرہ تمہارا ہے
لڑ کھڑا کر بیٹھ گئے تیری زلف کے سائے میں
جب تیری شبنم میں ڈوبے تو جانا کیا عشق تمہارا ہے
تیرے ہاتھوں کی نزاکت یاد ہے آج بھی ہمیں
روئی کی مانند مٹھی میں سما جانا کیا شباب تمہارا ہے
یوں بے تاباناں نظر اٹھا کر دیکھا جو جانب چشم
یوں موم کی طرح جلنا پھر پگھلنا واللہ کیا انداز تمہارا ہے





Comments


  1. اک ذات تھی اسکی کہ بھول بیٹھا تھا خود کو
    شاید اک تمنا تھی وہ جو گلشن یار میں پڑا تھا

    Good

    ReplyDelete
  2. نگاہ الفت میں جنے کے تسلسل کو فنا کر کے
    کئی راز ہزاروں گلفشاں کرکے

    ReplyDelete

Post a Comment