تیرے عشق نے لیلی کبھی مجنوں جو بنا رکھا ہے

تیرے عشق نے لیلی کبھی مجنوں جو بنا رکھا ہے
خدا کی قسم بہت عجب تماشا لگا رکھا ہے
تپیش عشق میں بھی ہے سکون اسقدر
اب آگ کے گلزار ہونے میں کیا رکھا ہے
زندگی کانٹوں پر بسر ہو یا نرم بستر پر
آخر قضا ضروری ہے پھر اس کھیل میں کیا رکھا ہے
عادت سی ہوگی ہے تیرے غموں میں چور ہونے کی
اب ان لعب و لہو اور راحت میں کیا رکھا ہے
کھو دیا تیری ذات میں خود کو اسقدر
سچ بتائیں تو اب ہماری ذات میں کیا رکھا ہے
تیرے چہرے کے نقش چھپے ہیں ہماری چشم میں ایسے
ذرا دیکھو تو ان گلاب کی خوشبو میں اب کیا رکھا ہے
              بنت اقبال


کچھ خاص نہ سہی یہ ذات ہماری 
کاش ہمارہ کوئی بھرم ہی رکھ لیا ہوتا
اک دل ہی تو تھا وہ بھی فدا آپ پر
ھم سے اس خلوص کو دور تو نہ کیا ہوتا
دل سے جوڑا اک خاص رشتہ پل میں پرایا کر دیا
ہمارے زخموں سے چور دل کو یوں نہ ذلیل کیا ہوتا
روٹھ جائیں گے اس فانی دنیا سے اک دن
پڑا رہ جاے گا زمانہ ہمارا طلبگار ہو کر
روح کو جھنجوڑ کر رکھ دیا زمانے کی روش نے
کبھی تو ہمارے مجرم ہونے کا اطراف کیا ہوتا
گلا تو خود سے ہے جن کو روح کا سا تھی مانا اس نے دل لگی کی
کبھی تو ہمارے خلوص نیت کو سمجھا ہوتا


کبھی خود کو کبھی تیری ذات کو دیکھتے ہیں
اک جان میں پنہاں راز ہزار دیکھتے ہیں
ہم تو غفلت میں بھٹک گئے تیری انجمن سے
تو تو بیدار ہے پھر تجھ کو کیوں رسوا دیکھتے ہیں
اک روز حقیقت خلق روح بھی آجائے گی سامنے
پھر ہر اک کو کیوں مستی میں ڈوبا صبح و شام دیکھتے ہیں
ہم تو قابل نہیں کسی ذات پاکیزہ کے
پھر کیوں ہر ذات کو بدنام دیکھتے ہیں
کوئی مسلم کوئی کافر ہےتو کوئی یہودی ونصارا
آخر کیوں پھر ہر اک کا ایک طرزحیات دیکھتے ہیں
ہم کو جو بات بات پر بےوفا بولتے ہو
پھر کیوں تمہیں پریشان وفا دیکھتے ہیں
مل جائے کوئی ہم سا تو دیکھلانا ذرا ہمیں
ہم تو ازل سے خود کو اشکوں میں ڈوبا بے تاب دیکھتے ہیں



Comments