Posts

Showing posts from April, 2018

مجھے عشق ہو تیری ذات سے میرے روبرو تو رہا کرے میں بکھروں تو سمیٹ لے کچھ یہ تسلسل رہا کرے

مجھے عشق ہو تیری ذات سے میرے روبرو تو رہا کرے میں بکھروں تو سمیٹ لے کچھ یہ تسلسل رہا کرے تیری پاکیزگی یوں اترے میری روح میں پھر قلب و باطن بھی ریزہ ریزہ رہا کرے منتشر ہوں جب بھی تیری جستجو میں تو تھام کر میری دھڑکنیں مجھے نظر میں رکھا کرے کاش میں ناچوں تیرے عشق میں تو جوگی جوگی کہاں کرے

اک کہانی میری زبانی - 1 نہ مرغا اماں کے ہاتھ پر ٹھونگ مارتا نہ ذلیل ہوتا

*نہ مرغا اماں کے ہاتھ پر ٹھونگ مارتا نہ ذلیل ہوتا..* *میں نے فخریہ انداز میں بابا جی سے کہا کہ میرے پاس اچھا بینک بیلنس ہے، دو گاڑیاں ہیں، بچے اچهے سکول میں پڑھتے ہیں۔*  *عزت، مرتبہ، ذہنی سکون، الغرض دنیا کی ہر آسائش مجھے میسر ہے۔* *بابا نے نظر بھر کر مجھے دیکھا اور بولے:*  *"معلوم ہے یہ کرم اس لیے ہوا کہ تو نے اللہ کے بندوں کو ٹھونگیں مارنا چھوڑ دیں۔"* *میں نے وضاحت چاہی۔ بابا کہنے لگے کہ میری اماں نے ایک اصیل ککڑ پال رکھا تھا۔ اماں کو اس مرغے سے خصوصی محبت تھی۔* *اماں اپنی بُک (مٹھی) بھر کر مرغے کی چونچ کے عین نیچے رکھ دیا کرتی تھیں، ککڑ چونچ جھکاتا اور جھٹ پٹ دو منٹ میں پیٹ بھر کر مستیوں میں لگ جاتا۔*  *میں روز یہ ماجرا دیکھا کرتا اور سوچتا کہ یہ ککڑ کتنا خوش نصیب ہے۔ کتنے آرام سے، بغیر محنت کئے، اسے اماں دانے ڈال دیتی ہیں۔* *ایک روز میں صحن میں بیٹھا پڑھ رہا تھا کہ حسب معمول اماں آئیں اور دانوں کی بُک بھر کر مرغے کی طرف بڑھیں۔ اماں نے جیسے ہی مٹھی آگے کی، مرغے نے اماں کے ہاتھ پر ٹھونگ (چونچ) مار دی۔ اماں نے تکلیف سے ہاتھ کو جھٹکا تو دانے پور

تیرے عشق نے لیلی کبھی مجنوں جو بنا رکھا ہے

تیرے عشق نے لیلی کبھی مجنوں جو بنا رکھا ہے خدا کی قسم بہت عجب تماشا لگا رکھا ہے تپیش عشق میں بھی ہے سکون اسقدر اب آگ کے گلزار ہونے میں کیا رکھا ہے زندگی کانٹوں پر بسر ہو یا نرم بستر پر آخر قضا ضروری ہے پھر اس کھیل میں کیا رکھا ہے عادت سی ہوگی ہے تیرے غموں میں چور ہونے کی اب ان لعب و لہو اور راحت میں کیا رکھا ہے کھو دیا تیری ذات میں خود کو اسقدر سچ بتائیں تو اب ہماری ذات میں کیا رکھا ہے تیرے چہرے کے نقش چھپے ہیں ہماری چشم میں ایسے ذرا دیکھو تو ان گلاب کی خوشبو میں اب کیا رکھا ہے               بنت اقبال کچھ خاص نہ سہی یہ ذات ہماری  کاش ہمارہ کوئی بھرم ہی رکھ لیا ہوتا اک دل ہی تو تھا وہ بھی فدا آپ پر ھم سے اس خلوص کو دور تو نہ کیا ہوتا دل سے جوڑا اک خاص رشتہ پل میں پرایا کر دیا ہمارے زخموں سے چور دل کو یوں نہ ذلیل کیا ہوتا روٹھ جائیں گے اس فانی دنیا سے اک دن پڑا رہ جاے گا زمانہ ہمارا طلبگار ہو کر روح کو جھنجوڑ کر رکھ دیا زمانے کی روش نے کبھی تو ہمارے مجرم ہونے کا اطراف کیا ہوتا گلا تو خود سے ہے جن کو روح کا سا تھی مانا اس نے دل لگی کی ک