Posts

Showing posts from March, 2018

لطف نگاہ شوق تھا ہمارا وہ

لطف نگاہ شوق تھا ہمارا وہ  وہ دیار ساقی کی اک بستی میں بسا تھا پینے پلانے کا کام نہ تھا اسکا  وہ تو اپنی ذات شوق میں ہوا بد مشت پڑا تھا اک ذات تھی اسکی کہ بھول بیٹھا تھا خود کو  شاید اک تمنا تھی وہ جو گلشن یار میں پڑا تھا ذوق شوق تھا نہ نگاہ لطف تھی اس میں وہ تو بس یونہی ہو کے بے قرار پڑا تھا کیا سبب تھا اسکی اداسی کا  کس نے جا نا  وہ قیامت تھا عالم قیامت میں پڑا تھا کون سمجھتا اسکے حالات ساقی وہ خود ہی خود کی ذات میں بے مثال پڑا تھا اک نظر کے عالم نے کیسا حیا سے پردہ اٹھایا  وہ خودی میں خودی سے ہونے ہم کلام پڑا تھا اس نے کیا مانگا کیا جانا کیا چاہا کیا خبر وہ تو ہونے اپنے آشنا سے ہم گفتار پڑا تھا یار عشق کا تھا اسکو خوف اسقدر  وہ اپنے ہی خوف میں ڈوبا ہوا تاریک شام پڑا تھا  نگاہ عشق نے نگاہ یار سے پوچھا جو اپنا حال  وہ نگاہ ذوق میں ڈوبا ہوا اشکوں میں بے تاب پڑا تھا سنا ہے کوئی تلاش گمشدہ ہے کون ہے وہ جو گمشدہ ہے کیا وہ جو راہ سخن کے متلاشی ہیں یا وہ جو عشق و حسن کے درمیان ہیں کیا وہ وہ تو نہیں جو عشق کے سمندر میں موجزن ہے یا وہ جو جستجو ب

تماشا گیر تھے سبھی آئے اور چلے گئے

تماشا گیر تھے سبھی آئے اور چلے گئے سمجھا نہ کسی نے وجہ تماشا کیا تھا مخمل کی چادر اوڑھے پڑے ہیں تخت شاہی پر خاک کے بستر پر سونا ہے ضرروآلم کیا تھا کبھی آفتاب ومہتاب کبھی کہکشاں کی بہاریں کبھی لگا کے گرہن سب کو سمجھایا کیا تھا دہلیز پر بیٹھے ہیں خودی کی بن کر بھکاری نیازونزر کچھ بھی نہیں یہ ستم کیا تھا اک ہنگامہ سا برپا ہے ارض و سما پر یکسر کڑک کے ساتھ مینہ یہ ماجرا کیا تھا کانٹوں میں جینا سکھتے ہیں ہر گلاب و ثمر دیتے ہیں چبھن لوٹاتے ہیں خوشبو یہ نظارہ کیا تھا غمخار ہمارا کون ہے جہان فانی میں ہر اک خود کا متلاشی ہے کنارہ کیا تھا تراشا ہے خود کو جواہر صنم کی طرح نکلے ہیں خودی میں خودی کے تصور کی طرح فاصلوں کی جستجو ہے نہ قلب واقر ہے تماشا دل ہے ضمیر تذلذل کی طرح فنا میں فنا ہیں اور طلب بھی فنا ہے بقا کو چھوڑ آئے ہیں الزام کفر کی طرح زمانے کی دھول کو جذب نظر سمجھنا صدق کو بکھیر دیا ہے زین عزم کی طرح آفتاب مشتری کو جانچ لیا ہم نے پہچان خودی کو بھول گے اجنبی کی طرح ٹوٹا ہے دل اور کھائے کتنے زخم پھر بھی نیر کو چھپا رکھا ہے چھپی مس

ہم تو پرواز عین شاہین رکھتے ہیں

ہستی زیشاں کی جستجو کے ساتھ ہم تو پرواز عین شاہین رکھتے ہیں قرب و بعد کے تسلسل میں نہ جھانک ہم تو نور بصر کے ساتھ بصیرت رکھتے ہیں زندگی کی روانی میں چھائے گھٹا ٹوپ اندھیرا تو کیا ہم تو فلک ہیں مہتاب کی ادا رکھتے ہیں ظاہر و باطن کے شکنجے میں ہیں جکڑ ے تو سنو ہم تو مینہ ہیں برستے ہیں بحر میں پناہ رکھتے ہیں ہمارے تخلص کو نہ بدلو لقب فتن سے ارے ہم تو فنا ہے مگر بقاء کی طلب رکھتے ہیں یہ جو رشتوں کی ڈور میں الجھے سے نظر آتے ہیں ہم حسن نظر ہیں ورفتگی قلب بھی بے پناہ رکھتے ہیں نکلے ہیں خود کو بچانے ذرا دیکھو گداگر ہم مجرم ہیں خود کو نفس میں قید رکھتے ہیں دل و دلبر کے شوقین نہ تھے ہم کبھی ہم تو بقا کی طلب اور عشق کی پہچان رکھتے ہیں گر گئے ہیں آتش عشق کی لہر میں اسقدر کہ اب ہم تو سراپا عشق ہیں عاشق کی ادا رکھتے ہیں                  بنت اقبال   _______________________________________________________ نکلے تھے وفا کی بھیک کی خاطر کسی سے وفا تو نہ ملی مگر طرز حیات مل گیا پتہ نہیں کیوں رہ گئ تھی اک کسک سی باقی ٹھکانہ تو ملا مگر کوئی س