لطف نگاہ شوق تھا ہمارا وہ
لطف نگاہ شوق تھا ہمارا وہ وہ دیار ساقی کی اک بستی میں بسا تھا پینے پلانے کا کام نہ تھا اسکا وہ تو اپنی ذات شوق میں ہوا بد مشت پڑا تھا اک ذات تھی اسکی کہ بھول بیٹھا تھا خود کو شاید اک تمنا تھی وہ جو گلشن یار میں پڑا تھا ذوق شوق تھا نہ نگاہ لطف تھی اس میں وہ تو بس یونہی ہو کے بے قرار پڑا تھا کیا سبب تھا اسکی اداسی کا کس نے جا نا وہ قیامت تھا عالم قیامت میں پڑا تھا کون سمجھتا اسکے حالات ساقی وہ خود ہی خود کی ذات میں بے مثال پڑا تھا اک نظر کے عالم نے کیسا حیا سے پردہ اٹھایا وہ خودی میں خودی سے ہونے ہم کلام پڑا تھا اس نے کیا مانگا کیا جانا کیا چاہا کیا خبر وہ تو ہونے اپنے آشنا سے ہم گفتار پڑا تھا یار عشق کا تھا اسکو خوف اسقدر وہ اپنے ہی خوف میں ڈوبا ہوا تاریک شام پڑا تھا نگاہ عشق نے نگاہ یار سے پوچھا جو اپنا حال وہ نگاہ ذوق میں ڈوبا ہوا اشکوں میں بے تاب پڑا تھا سنا ہے کوئی تلاش گمشدہ ہے کون ہے وہ جو گمشدہ ہے کیا وہ جو راہ سخن کے متلاشی ہیں یا وہ جو عشق و حسن کے درمیان ہیں کیا وہ وہ تو نہیں جو عشق کے سمندر میں موجزن ہے یا وہ جو جستجو ب